کوئٹہ میں سریاب لٹریری فیسٹول کا آغاز، پہلے ہی دن لوگ امڈ آئے

کوئٹہ: ڈیجیٹل نیوز اردو (ویب رپورٹر)
کوئٹہ میں سریاب لٹریری فیسٹیول کا آغاز ہوگیا۔ پہلے ہی روز لوگوں کا رش لگ گیا بڑی تعداد میں نوجوان طلبا و طالبات کتابوں کی خریداری کے علاوہ دلچسپ اور معلومات سے بھرپور مباحثوں میں شرکت کررہے ہیں۔ موسیقی کے سیشن میں بلوچستان کے فولک اور جدید موسیقی پر لیجنڈری فنکار نے ماضی کے تاریخی دلچسپ واقعات اور معلومات کا کھل اظہار کیا۔
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کے علاقے سریاب میں نوجوان رضاکاروں کی جانب سے اپنی مدد آپ قائم کئے گئے لوہڑ کاریز پبلک لائبریری میں لٹریری فیسٹیول منعقد کیا جارہا ہے۔ جس کا افتتاح بلوچستان کے لیجنڈری فنکار و موسیقار استاد عید محمد علی نے کیا۔

فیسٹیول میں کتب میلہ لگایا گیا ہے جس میں مختلف موضوعات اور زبانوں کی سینکڑوں کتابیں رکھی گئیں ہیں فیسٹیول شروع ہوتے ہی بڑی تعداد میں لوگ امڈ آئے بالخصوص نوجوان طلبا و طالبات کتابوں کی خریداری میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ہے۔ پہلے دن لیجنڈری فنکار بشیر بلوچ مرحوم کی یاد میں موسیقی کے موضوع پر مباحثے ہوا جس میں بلوچستان کے مایہ ناز لیجنڈری فنکار و موسیقار استاد عید محمد نے شرکت کی میزبان پروفیسر منظور بلوچ کیساتج سیشن میں بلوچستان کی قدیم اور جدید موسیقی پر سیر حاصل بحث کی گئی استاد عید محمد علی نے بشیر بلوچ کی وفات کو بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بہترین آواز کا مالک تھا۔ اس کی آواز صدیوں یاد رہے گی۔

استاد عید محمد علی نے اپنے دہائیوں پر مشتمل کیرئیر سے متعلق دلچسپ واقعات بتائے انہوں نے کہا کہ 8 سال کی عمر میں انہوں نے کوئٹہ میں ریڈیو کے قیام کیساتھ ہی اپنے کیریئر کا آغاز کیا 60 کہ دہائی میں براہوئی موسیقی شروع ہوئی تو انہوں نے براہوئی گانے گانا شروع کئے۔ شروع میں 15 منٹ براہوئی زبان کے ہوتے تھے۔ انہوں نے اور ساتھی فنکاروں نے بھرپور محنت کی جس سے براہوئی کے گانے بے حد مقبول ہونے لگے جس کے نتیجے میں ریڈیو پاکستان پر براہوئی زبان کا وقت 15 منٹ سے بڑھتے بڑھتے 5 گھنٹے ہوئے۔ استاد عید محمد علی نے بتایا کہ وہ ماہانہ 30 کے قریب گانے انفرادی اور گروپ کے صورت میں کمپوز کرکے گاتے یہ سلسلہ چالیس سال جاری رہا تعداد یاد نہیں تاہم ان کی تخلیق کی گئی دھنیں اور گانے ہزاروں میں ہے۔ استاد عید محمد علی کی آواز میں مٹھاس ان کی پیران سالی میں بھی شہد کی مانند برقرار ہے۔ سیشن کے دوران انہوں نے اپنے مقبول فولک اور ماڈرن گیت گنگناتے گئے جس سے حاضرین پر سیر طاری ہوا۔ وہ بے حد محظوظ ہوئے۔

سریاب لٹریری فیسٹیول میں، علم و ادب ثقافت زبان موسیقی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے موضوعات پر مباحثوں کا بھی اہتمام کیا گیا جن میں اپنے شعبوں کے ماہرین اور نامور شخصیات شرکت کریں گی تین روزہ فیسٹیول اتوار 12 مارچ تک جاری رہے گا جس میں کتب میلے کے علاوہ، آرٹ اور کلچر کے نمائش بھی رکھے گئے ہیں

بسم اللہ بلوچ اور دیگر منتظمین نے ڈیجیٹل نیوز اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کہ شرکت ان کے لئے حوصلہ افزا ہے امید ہے کہ اس بار 25 لاکھ روپے سے زائد کے کتابوں کی خریداری ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ مالی طور پر انہیں مشکلات کا سامنا ضرور ہے مگر نوجوانوں کی محنت اور بڑی شخصیات اور رہنماوں کی مدد سے وہ یہ فیسٹول مکمل کریں گے۔
فیسٹول کے انعقاد کو شرکا بے حد سراہا رہے ہیں۔ سریاب کی رہائشی اور فیسٹول کی رضاکار ذلیخہ منظور نے ڈیجیٹل نیوز اردو کو بتایا کہ ہم کتاب کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس فیسٹول کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو پتا ہونا چاہئے کہ سریاب ایک مثبت سوچ اور ترقی پسند لوگوں کا علاقہ ہے۔ بدامنی کے باعث جس طرح سریاب کو بدنام کیا گیا وہ ہمارے لئے انتہائی دکھ کا باعث بنا ہے۔ فیسٹول میں آنے والے مقامی رہائشی عبدالوحید کا کہنا تھا کہ لٹریری فیسٹیول کے انعقاد سے وہ بے حد خوش ہیں۔ اس قسم کے پروگرامز سے کہ علم اور معلومات میں اضافے کیساتھ ساتھ ہمارے علاقے سریاب کا مثبت پہلو بھی دنیا کےسامنے عیاں ہورہا ہے جس کی انہیں بے حد خوشی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں