کوئٹہ: ڈیجیٹل نیوز اردو (ویب رپورٹر)
رمضان المبارک سے قبل مصنوعی مہنگائی پاکستان میں معمول ہے اس بار مقدس ماہ شروع ہونے سے قبل شدید مہنگائی کی لہر میں روایتی مصنوعی مہنگائی نے طوفان کھڑا کردیا۔بلوچستان جیسے غریب صوبے میں اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومت ایک مرتبہ پھر مجرمانہ خاموشی اور نمائشی کارروائیوں اور بیانات پر اکتفا کررہی ہیں
کوئٹہ کی مارکیٹ ریٹس کے مطابق ماہ رمضان سے قبل رواں ہفتے کے دوران دودھ 160 روپے سے بڑھ کر 200 روپے فی لیٹر چینی 95 سے 103 روپے فی کلو ، دال ماش فی کلو 460 روپے سے بڑھ کر 500 روپے چناچھولے 480 روپے سے بڑھ کر 530 روپے اور چاول باسمتی مارکیٹ سے غائب ہونے کے بعد مزید 20 روپے اضافے کیساتھ 380 سے بڑھ کر 400 فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ دوسری جانب حکومت پہلے سے جاری شدید مہنگائی پر قابو پانے اور رمضان سے قبل مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہے آٹے کی زائد قیمتوں پر گزشتہ برس سے تاحال فروخت جاری ہے 20 کلو تھیلا 2640 سے 2800 روپے میں فروخت ہورہا ہے بکرے کا گوشت سرکاری نرخ کے برعکس 1400 سے 1500 روپے فی کلو گائے کا گوشت 850 روپے سے 900 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے ۔ مرغی کا گوشت بدستور 650 سے 700 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔
انتظامیہ کی طرف سے دودھ کی قیمتوں میں خودساختہ اضافے پر محدود کارروائیاں کی گئیں تاہم اس کا کوئی اثر سامنے نہیں آسکا، دودھ فروش سرعام 200 روپے فی کلو فروخت کررہے ہیں، اسی طرح نانبائی بھی روٹی کی قیمت بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس صورتحال پر شہریوں میں غم و غصہ بڑھنے لگا ہے۔ رکشہ چلانے والے وحید احمد کا کہنا ہے کہ پٹرول مہنگا ہونے سے آمدن نہیں ہورہی۔ اوپر سے مہنگائی نے جینا دو بھر کردیا ہے۔ لگتا ہے رمضان بھوکے گزاریں گے اور عید پرانے کپڑے پہن کر گزاریں گے۔ جوائنٹ روڈ کے رہائشی امین اللہ خان نے کہا ہے تنخواہ سے گزارہ ممکن نہیں رہا سمجھ نہیں آرہی خودکشی کریں یا ڈاکہ ڈالیں۔ گوشت تو دور کی بار دال کھانے سے بھی محروم ہوگئے ہیں حکومت اور حکمران طبقہ اس مہنگائی کے ذمہ دار ہیں التجا کریں تو کس سے کریں
